بِسْمِ اللَّهِ الرَّØ+ْمَنِ الرَّØ+ِيمِ

اس کا دوسرا نام سورۃ Ù„ÙŽÙ… یَکن۔ بھی ہے۔ Ø+دیث میں ہے ØŒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ Ø+ضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا ØŒ اللہ Ù†Û’ مجھے Ø+Ú©Ù… دیا ہے کہ میں سورۃ Ù„ÙŽÙ… یَکن الذینَ کَفَرُو تجھے Ù¾Ú‘Ú¾ کر سناؤں Û” Ø+ضرت ابی رضی اللہ عنہ Ù†Û’ پوچھا ØŒ کیا اللہ Ù†Û’ آپ Ú©Û’ سامنے میرا نام لیا ہے؟ “ہاں “ جس پر (مارے خوشی Ú©Û’ )Ø+ضرت ابی رضی اللہ عنہ Ú©ÛŒ Ø¢ÚºÚ©Ú¾ÙˆÚº میں آنسو آگئے (صیØ+ÛŒØ+ البخاری سورۃ لم یکن )

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُ+وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِ+كِ٠نَ مُنفَكِّينَ Ø+َتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ï´¿Ù¡ï´¾

اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ﻇاہر دلیل نہ آجائے باز رہنے والے نہ تھے (وه دلیل یہ تھی کہ) (1)

تفسیر

١۔١ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں،

۱۔۲مشرک سے مراد عرب Ùˆ عجم Ú©Û’ وہ لوگ ہیں جو بتوں اور Ø¢Ú¯ Ú©Û’ پجاری تھے۔ منفکّین باز آنے والے، بیّنۃ (دلیل) سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہود Ùˆ نصاریٰ اور عرب وعجم Ú©Û’ مشرکین اپنے کفرو شرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان Ú©Û’ پاس Ù…Ø+مد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن Ù„Û’ کر Ø¢ جائیں اور وہ ان Ú©ÛŒ ضلالت Ùˆ جہالت بیان کریں اور انہیں ایمان Ú©ÛŒ دعوت دیں۔

Ù¢Û”Û±Ø+ضرت Ù…Ø+مد صلی اللہ علیہ وسلم۔

رَ+سُولٌ مِّنَ اللَّـهِ يَتْلُو صُØ+ُفًا مُّطَهَّرَ+ةً ﴿٢﴾

اللہ تعالیٰ کا ایک رسول جو پاک صØ+یفے Ù¾Ú‘Ú¾Û’ (2)

تفسیر

Û² یعنی قرآن مجید جو لوØ+ Ù…Ø+فوظ میں پاک صØ+یفوں میں درج ہے۔

فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ﴿٣﴾

جن میں صØ+ÛŒØ+ اور درست اØ+کام ہوں (3)

تفسیر

Û³Û”Û± یہاں کتب سے مراد اØ+کام دینیہ، قیمہ، معتدل اور سیدھے۔

وَمَا تَفَرَّ+قَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ ﴿٤﴾

اہل کتاب اپنے پاس ﻇاہر دلیل آجانے کے بعد ہی (اختلاف میں پڑ کر) متفرق ہوگئے (4)

تفسیر

Ù¤Û”Ù¡ یعنی اہل کتاب، Ø+ضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ آمد سے قبل اکھٹے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ بعث ہوگئی، اس Ú©Û’ بعد یہ متفرق ہوگئے، ان میں سے Ú©Ú†Ú¾ مومن ہوگئے لیکن اکثریت ایمان سے Ù…Ø+روم ہی رہی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ بعث Ùˆ رسالت Ú©Ùˆ دلیل سے تعبیر کرنے میں یہی نقطہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ صداقت واضØ+ تھی جس میں مجال انکار نہیں تھی۔ لیکن ان لوگوں Ù†Û’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ تکذیب Ù…Ø+ض Ø+سد اور عناد Ú©ÛŒ وجہ سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تفرق کا ارتکاب کرنے والوں میں صرف اہل کتاب کا نام لیا ہے، Ø+الانکہ دوسروں Ù†Û’ بھی اس کا ارتکاب کیا تھا، کیونکہ یہ بہرØ+ال علم والے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ آمد اور صفات کا تذکرہ ان Ú©ÛŒ کتابوں میں موجود تھا۔

وَمَا أُمِرُ+وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ Ø+ُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ Ûš وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥﴾

انہیں اس Ú©Û’ سوا کوئی Ø+Ú©Ù… نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ Ú©ÛŒ عبادت کریں اسی Ú©Û’ لئے دین Ú©Ùˆ خالص رکھیں۔ ابراہیم Ø+نیف Ú©Û’ دین پر اور نماز Ú©Ùˆ قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا (5)

تفسیر

Ù¥Û”Ù¡ یعنی ان Ú©ÛŒ کتابوں میں انہیں Ø+Ú©Ù… تو یہ دیا گیا تھا کہ۔۔۔
ÛµÛ”Û²Ø+نیف Ú©Û’ معنی ہیں، مائل ہونا، کسی ایک طرف یکسو ہونا، Ø+نفآء جمع ہے۔ یعنی شرک سے توØ+ید Ú©ÛŒ طرف اور تمام ادیان سے منقطع ہو کر صرف دین اسلام Ú©ÛŒ طرف مائل اور یکسو ہوتے ہوئے۔ جیسے Ø+ضرت ابراہیم علیہ والسلام Ù†Û’ کیا۔
۵۔۳ا؛القیّمۃ Ù…Ø+ذوف موصوف Ú©ÛŒ صفت ہے۔ دین الملۃ القیّمۃ ائ: المستقیمۃ یا الأمّۃ المستقیمۃ المعتدلۃ، یہی اس ملت یا امت کا دین ہے جو سیدھی اور معتدل ہے۔ اکثر ائمہ Ù†Û’ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اعمال، ایمان میں داخل ہیں (ابن کثیر)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ+وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِ+كِ٠نَ فِي نَارِ+ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَـٰئِكَ هُمْ شَرُّ+ الْبَرِ+يَّةِ ﴿٦﴾

بیشک جو لوگ اہل کتاب میں کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں (جائیں گے) جہاں وه ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین خلائق ہیں (6)

تفسیر

٦۔١ یہ اللہ کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ نیز انہیں تمام مخلوقات میں بدترین قرار دیا گیا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِØ+َاتِ أُولَـٰئِكَ هُمْ خَيْرُ+ الْبَرِ+يَّةِ ﴿٧﴾

بیشک جو لوگ ایمان ﻻئےاور نیک عمل کیے یہ لوگ بہترین خلائق ہیں (7)

تفسیر

٧۔١ یعنی جو دل کے ساتھ ایمان لائے اور جنہوں نے اعضا کے ساتھ عمل کئے، وہ تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل ہیں۔ جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مومن بندے ملائکہ سے شرف فضل میں بہترین ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے۔ البریۃ ، یرأ (خلق) سے ہے۔ اسی سے اللہ کی صفت الباری ہے۔ اس لیے بریّہ اصل میں بریئۃ ہے، ہمزہ کو یا سے بدل کر یا کا یا میں ادغام کر دیا گیا

جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَ+بِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِ+ÙŠ مِن تَØ+ْتِهَا الْأَنْهَارُ+ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا Û– رَّ+ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ+ضُوا عَنْهُ Ûš ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَ+بَّهُ ﴿٨﴾

ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے۔ یہ ہے اس کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرے (8)

تفسیر

۸۔۱ان Ú©Û’ ایمان وطاعت اور اعمال صالØ+ہ Ú©Û’ سبب۔ اللہ Ú©ÛŒ رضامندی سب سے بڑی چیز ہے (ورضوان من اللہ اکبر)(التوبہ 76)
Ù¨Û”Û² اس لئے کہ اللہ Ù†Û’ انہیں ایسی نعمتوں سے نواز دیا، جن میں ان Ú©ÛŒ روØ+ اور بدن دونوں Ú©ÛŒ سعادتیں ہیں۔
Ù¨Û”Û³ یعنی یہ جزا اور رضامندی ان لوگوں Ú©Û’ لئے ہے جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہے اور اس Ú©Û’ ڈر Ú©ÛŒ وجہ سے اللہ Ú©ÛŒ نافرمانی Ú©Û’ ارکاب سے بچتے رہے۔ اگر کسی وقت بہ تقاضائے بشریے نافرمانی ہاگئی تو فوراً توبہ کر لی۔ اور آئندہ Ú©Û’ لیے اپنی اصلاØ+ کر لی، Ø+تیٰ کہ ان Ú©ÛŒ موت اسی اطاعت پر ہوئی نہ کہ معصیت پر۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا معصیت پر اصرار اور دوام نہیں کر سکتا اور جو ایسا کرتا ہے، Ø+قیقت میں اس کا دل اللہ Ú©Û’ خوف سے خالی ہے۔ —